اپنا پتہ نہ اپنی خبر چھوڑ جاؤں گا
بے سمتیوں کی گرد سفر چھوڑ جاؤں گا
تجھ سے اگر بچھڑ بھی گیا میں تو یاد رکھ
چہرے پہ تیرے اپنی نظر چھوڑ جاؤں گا
غم دوریوں کا دور نہ ہو پائے گا کبھی
وہ اپنی قربتوں کا اثر چھوڑ جاؤں گا
گزرے گی رات رات مرے ہی خیال میں
تیرے لیے میں صرف سحر چھوڑ جاؤں گا
جیسے کہ شمع دان میں بجھ جائے کوئی شمع
بس یوں ہی اپنے جسم کا گھر چھوڑ جاؤں گا
میں تجھ کو جیت کر بھی کہاں جیت پاؤں گا
لیکن محبتوں کا ہنر چھوڑ جاؤں گا
آنسو ملیں گے میرے نہ پھر تیرے قہقہے
سونی ہر ایک راہ گزر چھوڑ جاؤں گا
سنسار میں اکیلا تجھے اگلے جنم تک
ہے چھوڑنا محال مگر چھوڑ جاؤں گا
اس پار جا سکیں گی تو یادیں ہی جائیں گی
جو کچھ ادھر ملا ہے ادھر چھوڑ جاؤں گا
غم ہوگا سب کو اور جدا ہوگا سب کا غم
کیا جانے کتنے دیدۂ تر چھوڑ جاؤں گا
بس تم ہی پا سکو گے کریدو گے تم اگر
میں اپنی راکھ میں بھی شرر چھوڑ جاؤں گا
کچھ دیر کو نگاہ ٹھہر جائے گی ضرور
افسانے میں اک ایسا کھنڈر چھوڑ جاؤں گا
کوئی خیال تک بھی نہ چھو پائے گا مجھے
یہ چاروں سمت آٹھوں پہر چھوڑ جاؤں گا
غزل
اپنا پتہ نہ اپنی خبر چھوڑ جاؤں گا
کرشن بہاری نور