EN हिंदी
اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے | شیح شیری
apna nafas nafas hai ki shoala kahen jise

غزل

اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے

واحد پریمی

;

اپنا نفس نفس ہے کہ شعلہ کہیں جسے
وہ زندگی ہے آگ کا دریا کہیں جسے

ہر چند شہر شہر ہے جشن سحر مگر
وہ روشنی کہاں ہے سویرا کہیں جسے

وہ رنگ فصل گل ہے کہ پت جھڑ بھی مات کھائے
وہ صورت چمن ہے کہ صحرا کہیں جسے

جو چارہ گر تھے وہ بھی ہوئے قاتل حیات
اب کون ہے کہ اپنا مسیحا کہیں جسے

دیوار و در پہ ثبت ہیں نقش و نگار یار
اپنا مکان ہے کہ اجنتا کہیں جسے

اس طرح تابناک ہے وہ سجدہ گاہ شوق
جان حرم کہ جان کلیسا کہیں جسے

واحدؔ تمہیں جو خواہش نام و نمود ہو
وہ شاعری کرو کہ معمہ کہیں جسے