اپنا خالق خود ہی تھا میرا خدا کوئی نہ تھا
اس جہاں میں مجھ سے پہلے دوسرا کوئی نہ تھا
رات بھر چلتا رہا تھا چاند میرے ساتھ ساتھ
دشت میں اس کا کہیں بھی نقش پا کوئی نہ تھا
فاصلے ہی فاصلے تھے منزلیں ہی منزلیں
ہم سفر کوئی نہ تھا اور رہ نما کوئی نہ تھا
وہ پیمبر تھا کھڑا تھا اک گلی کے موڑ پر
اجنبی بستی میں اس کو جانتا کوئی نہ تھا
دور تک پھیلی ہوئی تھیں درد کی تنہائیاں
دو دلوں کے درمیاں جب فاصلہ کوئی نہ تھا
کس قدر سنسان تھی اس شہر الفت کی گلی
بند تھے سارے دریچے جھانکتا کوئی نہ تھا
گونجتی تھیں جب تمہاری یاد کی خاموشیاں
دل کے ویرانے نگر میں جاگتا کوئی نہ تھا
جسم و جاں کی قید میں رہنا پڑا اک عمر تک
بچ نکلنے کا کہیں بھی راستہ کوئی نہ تھا
غزل
اپنا خالق خود ہی تھا میرا خدا کوئی نہ تھا
شعلہ ہسپانوی