اپنا ہی شکوہ اپنا گلا ہے
اہل وفا کو کیا ہو گیا ہے
ہم جیسے سرکش بھی رو دیئے ہیں
اب کے کچھ ایسا غم آ پڑا ہے
دل کا چمن ہے مرجھا نہ جائے
یہ آنسوؤں سے سینچا گیا ہے
ہاں فصل گل میں رندوں کو ساقی
اپنا لہو بھی پینا پڑا ہے
یہ درد یوں بھی تھا جان لیوا
کچھ اور بھی اب کے بڑھتا چلا ہے
بس ایک وعدہ کم بخت وہ بھی
مر مر کے جینا سکھلا گیا ہے
جرم محبت مجھ تک ہی رہتا
ان کا بھی دامن الجھا ہوا ہے
اک عمر گزری ہے راہ تکتے
جینے کی شاید یہ بھی سزا ہے
دل سرد ہو کر ہی رہ نہ جائے
اب کے کچھ ایسی ٹھنڈی ہوا ہے
غزل
اپنا ہی شکوہ اپنا گلا ہے
خلیلؔ الرحمن اعظمی