اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
خود کشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں
اور کچھ دن ابھی اوروں کو ستایا جائے
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
کیا ہوا شہر کو کچھ بھی تو دکھائی دے کہیں
یوں کیا جائے کبھی خود کو رلایا جائے
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
غزل
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
ندا فاضلی