اپنا اعجاز دکھا دے ساقی
آگ سے آگ بجھا دے ساقی
نقش بیداد مٹا دے ساقی
ہم کو آزاد بنا دے ساقی
وہ اٹھیں کالی گھٹائیں توبہ
اب تو پینے کی رضا دے ساقی
جس سے سوئے ہوئے دل چونک اٹھیں
نغمہ اک ایسا سنا دے ساقی
تجھ کو مستقبل زریں کی قسم
پچھلی باتوں کو بھلا دے ساقی
صدر مے خانہ بنایا تھا کبھی
اب جہاں چاہے بٹھا دے ساقی
وہ جو تسبیح لیے ہے اس کو
میرے آگے سے اٹھا دے ساقی
نشۂ فکر ابھی باقی ہے
ایک جام اور اٹھا دے ساقی
قصر اوہام کو ڈھانے کے لیے
سارا مے خانہ لنڈھا دے ساقی
سب جسے کہتے ہیں وامقؔ وامقؔ
ہم کو بھی اس سے ملا دے ساقی
غزل
اپنا اعجاز دکھا دے ساقی
وامق جونپوری