اپنا دامن دیکھ کر گھبرا گئے
خون کے چھینٹے کہاں تک آ گئے
بھول تھی اپنی کسی قاتل کو ہم
دیوتا سمجھے تھے دھوکہ کھا گئے
ہر قدم پر ساتھ ہیں رسوائیاں
ہم تو اپنے آپ سے شرما گئے
ہم چلے تھے ان کے آنسو پونچھنے
اپنی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے
ساتھ ان کے میری دنیا بھی گئی
آہ وہ دنیا سے میری کیا گئے
نقشؔ کوئی ہم بھی جائیں چھوڑ کر
جیسے میرؔ و غالبؔ و سوداؔ گئے
غزل
اپنا دامن دیکھ کر گھبرا گئے
نقش لائل پوری