اپنا چھوڑا ہوا گھر یاد آیا
خلد میں خلد نظر یاد آیا
کتنی صدیوں کی تھکن ہے جاں پر
ایک لمحے کا سفر یاد آیا
جس کے سائے نے جلایا مجھ کو
پھر وہ سرسبز شجر یاد آیا
ہاتھ میں چاند کی مٹی لے کر
کتنے فرقوں کا سفر یاد آیا
ہم ہوئے اپنی نظر میں جھوٹے
اس کا پیمان نظر یاد آیا
اس سے اب خواب کا رشتہ بھی غلط
سر جھٹک دے وہ اگر یاد آیا
کیا نہ ثابت تھی مری خوش ہنری
کیوں ترا حسن نظر یاد آیا
پھر رگ و پے کی فضا ہے بوجھل
پھر بگولوں کا سفر یاد آیا
مدتوں جس کی پرستش کی تھی
پھر وہ آباد کھنڈر یاد آیا
تھے انہی آنکھوں میں سپنے کتنے
اپنا آغاز سفر یاد آیا
رات یوں گھاس کی خوشبو لپٹی
نیند ہی آئی نہ گھر یاد آیا
جم گئے میل کے پتھر کی طرح
کیا سر راہ گزر یاد آیا
پھر ہے شاہینؔ غزل راز چمن
پھر کوئی سوختہ پر یاد آیا

غزل
اپنا چھوڑا ہوا گھر یاد آیا
ولی عالم شاہین