اپنا بگڑا ہوا بناؤ لیے
جی رہے ہیں وہی سبھاؤ لیے
شام اتری ہے پھر احاطے میں
جسم پر روشنی کے گھاؤ لیے
سیدھی سادی سی راہ تھی مجھ تک
تم نے ناحق کئی گھماؤ لیے
درد کے قہر سے لڑیں کب تک
اک ترے روپ کا الاؤ لیے
لوگ دریا سمجھ رہے ہیں مجھے
مجھ میں صحرا ہے اک بہاؤ لیے
دل نے بے رنگ ہونے سے پہلے
ہلکے گہرے کئی رچاؤ لیے
تجھ سے کہنا تھا کچھ پہ لگتا ہے
مر ہی جائیں گے جی میں چاؤ لیے

غزل
اپنا بگڑا ہوا بناؤ لیے
بکل دیو