اپنا بھی بوجھ مجھ سے کہاں ٹھیک سے اٹھا
یہ سارا مسئلہ مری تشکیک سے اٹھا
وہ حال تھا کہ بس مرا اٹھنا محال تھا
لیکن پھر ایک خواب کی تحریک سے اٹھا
کاندھوں پہ تیرے آبرو مندی کا بوجھ ہے
یہ راہ زندگی ہے قدم ٹھیک سے اٹھا
کاشفؔ حسین خلق کے اٹھنے کی دیر تھی
اک آفتاب گوشۂ تاریک سے اٹھا
کاشفؔ حسین مجھ سے مجھے دور لے گیا
کیا شور تھا کہ جو مرے نزدیک سے اٹھا

غزل
اپنا بھی بوجھ مجھ سے کہاں ٹھیک سے اٹھا
کاشف حسین غائر