اب اپنا حال ہم انہیں تحریر کر چکے
خامہ سپرد کاتب تقدیر کر چکے
کہتے ہیں تم وصال کی تدبیر کر چکے
گویا ہمارے حق میں وہ تقدیر کر چکے
تدبیر کو حوالۂ تقدیر کر چکے
ہم بے زباں بھی یار سے تقریر کر چکے
دل خار خار خندۂ چشم اثر ہے اب
دل گرم صرف نالۂ شب گیر کر چکے
مرتا ہوں یوں کہ بستۂ فتراک کیوں نہیں
میں ہوں وہی کہ تم جسے نخچیر کر چکے
ہم جان کیوں نہ دیں دم گفتار بار بار
پر دیکھتے ہیں یہ کہ وہ تقریر کر چکے
باہر ہے ضبط شرم سے آشفتگی مری
تم بھی اسیر زلف گرہ گیر کر چکے
وقت پیام وصل وہ کہتے ہیں ہو چکا
شاید عدو سے وصل کی تحریر کر چکے
بس انتظار صبح قیامت نہیں قبول
ہم اب تو عزم نالۂ شب گیر کر چکے
کچھ مزد رنج بازوئے قاتل نہیں کہ دل
نذر ادائے برش شمشیر کر چکے
کھلتا نہیں یہ عقدہ کہ ہو بیٹھے شاد کیوں
کس کو اسیر زلف گرہ گیر کر چکے
کہئے کہ شان عشق میں کیا ہو گئی کمی
گو آپ خوب سی مری تحقیر کر چکے
دل ہے یہاں دو نیم قصور تپش معاف
تم بھی نگاہ بزم کو شمشیر کر چکے
کھلتا ہے اور نالہ سرائی سے دل مرا
نالہ یہ بیں تو ان پہ بھی تاثیر کر چکے
صورت چھپائیے کسی صورت پرست سے
ہم دل میں نقش آپ کی تصویر کر چکے
دامن کشاں چلے ہیں مری خاک پر سے وہ
برباد کرنے کی مری تدبیر کر چکے
کچھ حشر خیزی شب غم انتظار مرگ
کچھ دور ظلم وقت کی تاخیر کر چکے
گوتم نے اس کو رکھ کے نظر میں گرا دیا
لیکن عدو کی عزت و توقیر کر چکے
تا چرخ ہیں اڑائے پھرے مجھ کو ضعف میں
نالے کہاں کہاں مجھے تشہیر کر چکے
ہے وہاں نگہ نگہ کو سر دلبری مگر
دل کو میرے وہ قسمت صد تیر کر چکے
کہئے کہ زور بازوئے میں کدھر گیا
سو بار غیر آپ کی تقصیر کر چکے
پہلے جبیں حوالۂ تقدیر کر چکے
دل مصر ہے کہ کارکنان قضا اے
سامان صد شکستیں تعمیر کر چکے
چن چن کے بے گنہ کو وہ لاتے ہیں زیر تیغ
ہم جب سے اس امید پہ تقصیر کر چکے
آخر تو بعد اس کے ہے یاس سے امید
جو کچھ ہم اپنی آہ کی تاثیر کر چکے
اب کیا کہیں کہ قول وفا دے چکے انہیں
پہلے ہی قطع دامن تقریر کر چکے
اب کیا رہا لپیٹ میں دامن سے آپ کے
مٹی ہم اپنی آپ جو توقیر کر چکے
ہے چشم دجلہ باز تو کیا ہم کو چشم زیست
کاشانہ روئے آب پہ تعمیر کر چکے
کیوں التجائے قتل سے کیجیے انہیں ستنگ
جب وقت آ گیا تو وہ تاخیر کر چکے
ہم کس سے شکر و مدح قبول دعا کریں
لب قسمت شکایت تاثیر کر چکے
اب منہ سے بولتی کوئی تصویر آپ کی
جاں اپنی ہم حوالۂ تقدیر کر چکے
اس لب پہ امتحاں کے لئے مر مٹے ہیں ہم
جینے سے پہلے مرنے کی تدبیر کر چکے
ہوتا ہے وہ ہی یہاں کہ جو منظور ہے وہاں
انورؔ ہم آزمائش تقدیر کر چکے
غزل
اب اپنا حال ہم انہیں تحریر کر چکے
انور دہلوی