انجمؔ تمہیں الفت ابھی کرنا نہیں آتا
ہر ایک پہ مرتے ہو پہ مرنا نہیں آتا
عالم کے حسیں بھرتے ہیں آنکھوں میں تمہاری
دم عشق کا بھرتے ہو پہ بھرنا نہیں آتا
ہم جان ہی سے اپنی گزر جائیں تو بہتر
ہٹ دھرمی سے ان کو جو گزرنا نہیں آتا
لو نام خدا ہم سے بناتے ہیں وہ باتیں
جن کو کہ ابھی بات بھی کرنا نہیں آتا
کہتے ہو مری لاش پہ مارا ہے یہ کس کا
کیوں جی یہی کہتے تھے مکرنا نہیں آتا
بکھرے ہوئے بالوں میں بھی ہیں لاکھ ادائیں
الھڑ کو ابھی میرے سنورنا نہیں آتا
کیا وصل کی شب کاٹی ہے فقرے ہی بتا کر
سچ ہے کہ تمہیں بات کترنا نہیں آتا
ایسا تو ہمیں پیس کہ ہوں آنکھوں کا سرمہ
اے چرخ تجھے جور بھی کرنا نہیں آتا
حق یہ ہے کہ انجم ترا دل ٹھہرے تو کیوں کر
سینے پہ انہیں ہاتھ بھی دھرنا نہیں آتا
غزل
انجمؔ تمہیں الفت ابھی کرنا نہیں آتا
مرزا آسمان جاہ انجم