انجام محبت سے میں بیگانہ نہیں ہوں
دیوانہ بنا پھرتا ہوں دیوانہ نہیں ہوں
دم بھر میں جو ہو ختم وہ افسانہ نہیں ہوں
انسان ہوں انسان میں پروانہ نہیں ہوں
ساقی تری آنکھوں کو سلامت رکھے اللہ
اب تک تو میں شرمندۂ پیمانہ نہیں ہوں
ہو بار نہ خاطر پہ تو ناصح کہوں اک بات
سمجھا لیں جسے آپ وہ دیوانہ نہیں ہوں
بربادیوں کا غم نہیں غم ہے تو یہ غم ہے
مٹ کر بھی میں خاک در جانانہ نہیں ہوں
توبہ ترے دامن پہ جنوں خیز نگاہیں
ہوں تو مگر اب اتنا بھی دیوانہ نہیں ہوں
سب کچھ مرے ساقی نے دیا ہے مجھے منظرؔ
محتاج مے و شیشہ و پیمانہ نہیں ہوں
غزل
انجام محبت سے میں بیگانہ نہیں ہوں
منظر لکھنوی