EN हिंदी
انیس جاں ہیں ابھی تک نشانیاں اس کی | شیح شیری
anis-e-jaan hain abhi tak nishaniyan uski

غزل

انیس جاں ہیں ابھی تک نشانیاں اس کی

حسن رضوی

;

انیس جاں ہیں ابھی تک نشانیاں اس کی
بھلائے بھول نہ پائے کہانیاں اس کی

ہر ایک لہجے میں شامل ہے ذائقہ اس کا
صدا صدا میں ہیں گوہر فشانیاں اس کی

کسی کو مار گیا اس کا تند و تیز مزاج
ہمیں تو مار گئیں قدر دانیاں اس کی

ذرا سی بات پہ اس کا سمٹ سمٹ جانا
وہ بات بات پہ نظراں جھکانیاں اس کی

کیے ہیں جب بھی تقاضے نئے نئے اس سے
سنی ہیں پھر وہی باتاں پرانیاں اس کی

کسی کی بات پہ اس کا مہک مہک اٹھنا
وہ میرے ذکر پہ کچھ بدگمانیاں اس کی

نظر میں حسن کسی کا حسنؔ سماتا نہیں
کہ ہم نے دیکھی ہیں اٹھتی جوانیاں اس کی