انیس جاں ہیں ابھی تک نشانیاں اس کی
بھلائے بھول نہ پائے کہانیاں اس کی
ہر ایک لہجے میں شامل ہے ذائقہ اس کا
صدا صدا میں ہیں گوہر فشانیاں اس کی
کسی کو مار گیا اس کا تند و تیز مزاج
ہمیں تو مار گئیں قدر دانیاں اس کی
ذرا سی بات پہ اس کا سمٹ سمٹ جانا
وہ بات بات پہ نظراں جھکانیاں اس کی
کیے ہیں جب بھی تقاضے نئے نئے اس سے
سنی ہیں پھر وہی باتاں پرانیاں اس کی
کسی کی بات پہ اس کا مہک مہک اٹھنا
وہ میرے ذکر پہ کچھ بدگمانیاں اس کی
نظر میں حسن کسی کا حسنؔ سماتا نہیں
کہ ہم نے دیکھی ہیں اٹھتی جوانیاں اس کی
غزل
انیس جاں ہیں ابھی تک نشانیاں اس کی
حسن رضوی