اندوہ بیش و کم نہ غم خیر و شر میں ہے
راز حیات وسعت فکر و نظر میں ہے
وہ مستئ نظر ہے اسی دل کی پاسدار
جو دل بہ روئے کار گناہ نظر میں ہے
اس کا خیال اس کا تصور اسی کی یاد
کوئی نہیں نظر میں وہ جب سے نظر میں ہے
کیف آشنا تھی زیست کبھی جس کی دید سے
وہ چشم مست آج بھی میری نظر میں ہے
کیسا طلسم حسن ہے اس جلوہ گاہ میں
جلوہ نظر میں ہے کبھی پردہ نظر میں ہے
کیا شے عطائے غم کی ہے کیفیت اے سحابؔ
خلوت حریم دل میں ہے محفل نظر میں ہے

غزل
اندوہ بیش و کم نہ غم خیر و شر میں ہے
شیو دیال سحاب