اندھیروں سے مرا رشتہ بہت ہے
میں جگنوں ہوں مجھے دکھتا بہت ہے
وطن کو چھوڑ کر ہرگز نہ جانا
مہاجر آنکھ میں چبھتا بہت ہے
خوشی سے اس کی تم دھوکہ نہ کھانا
پریشانی میں وہ ہنستا بہت ہے
کسی موسم کی فطرت جاننے کو
شجر کا ایک ہی پتا بہت ہے
محبت کا پتا دیتی ہیں آنکھیں
زباں سے وہ کہاں کھلتا بہت ہے
میاں اس شخص سے ہوشیار رہنا
سبھی سے جھک کے جو ملتا بہت ہے
غزل
اندھیروں سے مرا رشتہ بہت ہے
ملک زادہ جاوید