اندھیروں میں اجالے کھو رہے ہیں
نگر کے دیپ مدھم ہو رہے ہیں
ہوا میں اڑ رہی ہیں سرخ چیلیں
کبوتر گھونسلوں میں سو رہے ہیں
بہر جانب تعفن بڑھ رہا ہے
انوکھی فصل دہقاں بو رہے ہیں
عجب ارماں ہے تعمیر مکاں کا
کئی صدیوں سے پتھر ڈھو رہے ہیں
سر کوہ تمنا کون پہنچے
پرانے زخم اب تک دھو رہے ہیں
اٹا ہے شہر بارودی دھوئیں سے
سڑک پر چند بچے رو رہے ہیں
نہ پڑنے دی انا پر دھول راسخؔ
سراب زر میں برسوں گو رہے ہیں
غزل
اندھیروں میں اجالے کھو رہے ہیں
راسخ عرفانی