اندھیری شب ہے ضرورت نہیں بتانے کی
مری طرف سے اجازت ہے لوٹ جانے کی
کوئی تو ہو جو مزاج آشنائے دلبر ہو
کسی کے پاس تو چابی ہو اس خزانے کی
وہ چاہتا تو مجھے سنگ دل بنا دیتا
زیادتی مرے دل پر مرے خدا نے کی
میں دوسروں کے گھروں کو بچا رہا ہوں مگر
کسی کو فکر نہیں میرا گھر بچانے کی
میں اپنے آپ سے منکر ہوا تو ٹوٹ گیا
یہ دشمنی مرے اندر کی انتہا نے کی
جسے حریف سمجھ کر کیا ہے قتل نیازؔ
وہ آبرو تھا اسی بے نوا گھرانے کی
غزل
اندھیری شب ہے ضرورت نہیں بتانے کی
نیاز حسین لکھویرا