EN हिंदी
اندھیری شب ہے ضرورت نہیں بتانے کی | شیح شیری
andheri shab hai zarurat nahin batane ki

غزل

اندھیری شب ہے ضرورت نہیں بتانے کی

نیاز حسین لکھویرا

;

اندھیری شب ہے ضرورت نہیں بتانے کی
مری طرف سے اجازت ہے لوٹ جانے کی

کوئی تو ہو جو مزاج آشنائے دلبر ہو
کسی کے پاس تو چابی ہو اس خزانے کی

وہ چاہتا تو مجھے سنگ دل بنا دیتا
زیادتی مرے دل پر مرے خدا نے کی

میں دوسروں کے گھروں کو بچا رہا ہوں مگر
کسی کو فکر نہیں میرا گھر بچانے کی

میں اپنے آپ سے منکر ہوا تو ٹوٹ گیا
یہ دشمنی مرے اندر کی انتہا نے کی

جسے حریف سمجھ کر کیا ہے قتل نیازؔ
وہ آبرو تھا اسی بے نوا گھرانے کی