اندھیری رات کو دن کے اثر میں رکھا ہے
چراغ ہم نے تری رہ گزر میں رکھا ہے
یہ حوصلہ جو ابھی بال و پر میں رکھا ہے
تمہاری یاد کا جگنو سفر میں رکھا ہے
مکاں میں سونے کے شیشے کے لوگ ہوں جیسے
کسی کا نور کسی کی نظر میں رکھا ہے
یہ چاہتی ہوں انہی دائروں میں جاں دے دوں
کچھ اتنا سوز ہی رقص بھنور میں رکھا ہے
پلک جھپکتے ہی تحلیل ہو نہ جائے کہیں
ابھی تو خواب سا منظر نظر میں رکھا ہے
مجھے تو دھوپ کے موسم قبول تھے لیکن
یہ سایا کس نے مری دوپہر میں رکھا ہے
غزل
اندھیری رات کو دن کے اثر میں رکھا ہے
نصرت مہدی