اندھیری رات ہے رستہ سجھائی دے تو چلیں
سر فلک کوئی تارہ دکھائی دے تو چلیں
رکے ہیں یوں کہ سلاسل پڑے ہیں پاؤں میں
زمین بند وفا سے رہائی دے تو چلیں
کسی طرف سے تو کوئی بلاوا آ جائے
کوئی صدا سر محشر سنائی دے تو چلیں
سفر پہ نکلیں مگر سمت کی خبر تو ملے
کوئی کرن کوئی جگنو دکھائی دے تو چلیں
ابھی تو سر پہ کڑی دوپہر کا پہرہ ہے
شفق زمین کو رنگ حنائی دے تو چلیں
غزل
اندھیری رات ہے رستہ سجھائی دے تو چلیں
مقبول عامر