EN हिंदी
اندھیری رات ہے رستہ سجھائی دے تو چلیں | شیح شیری
andheri raat hai rasta sujhai de to chalen

غزل

اندھیری رات ہے رستہ سجھائی دے تو چلیں

مقبول عامر

;

اندھیری رات ہے رستہ سجھائی دے تو چلیں
سر فلک کوئی تارہ دکھائی دے تو چلیں

رکے ہیں یوں کہ سلاسل پڑے ہیں پاؤں میں
زمین بند وفا سے رہائی دے تو چلیں

کسی طرف سے تو کوئی بلاوا آ جائے
کوئی صدا سر محشر سنائی دے تو چلیں

سفر پہ نکلیں مگر سمت کی خبر تو ملے
کوئی کرن کوئی جگنو دکھائی دے تو چلیں

ابھی تو سر پہ کڑی دوپہر کا پہرہ ہے
شفق زمین کو رنگ حنائی دے تو چلیں