EN हिंदी
اندھیرے کو نگلتا جا رہا ہوں | شیح شیری
andhere ko nigalta ja raha hun

غزل

اندھیرے کو نگلتا جا رہا ہوں

سلیم فگار

;

اندھیرے کو نگلتا جا رہا ہوں
دیا ہوں اور جلتا جا رہا ہوں

مری ہر سمت یہ سائے سے کیوں ہیں
میں جیسے دن ہوں ڈھلتا جا رہا ہوں

دھواں سا پھیلتا جاتا ہوں بجھ کر
حدوں سے اب نکلتا جا رہا ہوں

زوال آدمیت دیکھ کر میں
کف افسوس ملتا جا رہا ہوں

مجھے تو ٹوٹنا ہے حشر بن کر
نہ جانے کیوں میں ٹلتا جا رہا ہوں

میں زندہ ہوں کئی صدیوں اب تک
فقط چہرے بدلتا جا رہا ہوں