اندھیرے ڈھونڈنے نکلے کھنڈر کیوں
خدا جانے ہوئے یہ در بدر کیوں
یہ بو اجڑے ہوئے بازار کی ہے
مری بستی ہوئی نا معتبر کیوں
سماعت منجمد سی ہو رہی ہے
مگر شعلہ بیانی پر اثر کیوں
اگر احساس ہی حیرت زدہ ہے
تو کاندھے پر لیے پھرتے ہو سر کیوں
یہ بوجھل شام کا دھندلا تصور
مرے احساس پر چھایا مگر کیوں
مزاج شہر میں تبدیلیاں ہیں
مرے تیور بدلتے دیکھ کر کیوں
جہاں پتھر تراشے جا رہے ہوں
وہاں خیمہ لگائیں شیشہ گر کیوں
خلا سے دیکھنا ہے رندؔ دنیا
تو پھر ٹھہروں پرانے چاند پر کیوں
غزل
اندھیرے ڈھونڈنے نکلے کھنڈر کیوں
پی.پی سری واستو رند