EN हिंदी
اندھیرے بند کمروں میں پڑے تھے | شیح شیری
andhere band kamron mein paDe the

غزل

اندھیرے بند کمروں میں پڑے تھے

پی.پی سری واستو رند

;

اندھیرے بند کمروں میں پڑے تھے
اجالے سیر پر نکلے ہوئے تھے

گھروں میں کھانستی تنہائیاں تھیں
یہ سناٹے پرانی نسل کے تھے

ہوس کی بستیاں آتش زدہ تھیں
بڑے کڑوے کسیلے واقعے تھے

صدائیں جھینگروں کی بڑھ رہی تھیں
اندھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگے تھے

سہاگن تھے مری بستی کے موسم
کھنکتی چوڑیاں پہنے ہوئے تھے

دھواں پانی بگولے دھوپ طوفاں
یہ اجزا تو ہمارے جسم کے تھے

اندھیری رات کے سادہ ورق پر
خرابے داستاں لکھنے لگے تھے

بھٹکنے کے لیے جب رندؔ نکلے
کہاں جانا ہے رستے پوچھتے تھے