اندھیرا میرے باطن میں پڑا تھا
کوئی مجھ کو پکارے جا رہا تھا
ہم اپنے آسمانوں میں کہیں تھے
ہمارے پیچھے کوئی آ رہا تھا
افق سنسان ہوتے جا رہے تھے
سکوت وصل کا منظر بھی کیا تھا
چمک کیسی بدن سے پھوٹ نکلی
ہمارے ہاتھ میں کس کا سرا تھا
سر لمس بدن جو لذتیں تھیں
خطا کے بطن میں جو کیف سا تھا
میں صدیوں اس طرف تھا اور وہ مجھ کو
مری موجودگی میں دیکھتا تھا
کوئی شب ڈھونڈتی تھی مجھ کو اور میں
تری نیندوں میں جا کر سو گیا تھا
اسی نے ظلمتیں پھیلا رکھی ہیں
اساس خواب پر جس کو رکھا تھا
غزل
اندھیرا میرے باطن میں پڑا تھا
عتیق اللہ