اندھے گونگے بہرے لوگ
اجلے کپڑے میلے لوگ
کم عمری میں سنتے ہیں
مر جاتے ہیں اچھے لوگ
بھاگ رہے ہیں دنیا میں
پاؤں کو سر پہ رکھے لوگ
رستے میں مل جاتے ہیں
تتلی کے پر جیسے لوگ
آئینوں کو لے کر ساتھ
پھرتے ہیں بے چہرے لوگ
مہنگے گھر میں رہتے ہیں
برف کے جیسے ٹھنڈے لوگ
دور حاضر میں جاویدؔ
کپڑوں میں ہیں ننگے لوگ
غزل
اندھے گونگے بہرے لوگ
ملک زادہ جاوید