EN हिंदी
اندیشوں کا زہر پیا ہے | شیح شیری
andeshon ka zahr piya hai

غزل

اندیشوں کا زہر پیا ہے

انتخاب سید

;

اندیشوں کا زہر پیا ہے
مشکل سے جینا سیکھا ہے

وقت نے ایسا غم بخشا ہے
صحراؤں میں جی لگتا ہے

دامن دامن خون کے دھبے
آخر کس کا قتل ہوا ہے

آج کلب کے دروازے پر
چپراسی خاموش کھڑا ہے

دیوانوں کی بات نہ مانو
لیکن سن لینے میں کیا ہے

اب تو خود اپنے چہرے پر
غیروں کا دھوکا ہوتا ہے

دھیرے دھیرے جیسے کوئی
میرے وجود کو چاٹ رہا ہے