اندیشوں کا زہر پیا ہے
مشکل سے جینا سیکھا ہے
وقت نے ایسا غم بخشا ہے
صحراؤں میں جی لگتا ہے
دامن دامن خون کے دھبے
آخر کس کا قتل ہوا ہے
آج کلب کے دروازے پر
چپراسی خاموش کھڑا ہے
دیوانوں کی بات نہ مانو
لیکن سن لینے میں کیا ہے
اب تو خود اپنے چہرے پر
غیروں کا دھوکا ہوتا ہے
دھیرے دھیرے جیسے کوئی
میرے وجود کو چاٹ رہا ہے

غزل
اندیشوں کا زہر پیا ہے
انتخاب سید