اندروں نیند کا اک خالی مکاں ہوتا تھا
میری آنکھوں میں ترا خواب نہاں ہوتا تھا
روز جاتے تھے بہت دور تلک ہم دونوں
پر یہ معلوم نہیں ہے میں کہاں ہوتا تھا
دشت کے پار بہت دور تھی اک آبادی
اور اس سمت بہت گہرا دھواں ہوتا تھا
خوف کے بعد بھی وحشت ہی نظر آتی تھی
وحشتوں سے بھی پرے کوئی جہاں ہوتا تھا
میں کہانی سے بہت دور نکل آیا تھا
میرا کردار کہیں اور بیاں ہوتا تھا

غزل
اندروں نیند کا اک خالی مکاں ہوتا تھا
وصاف باسط