اندر تو خیالوں کے ہو آئے خیال اپنا
افشائے حقیقت سے ڈرتا ہے سوال اپنا
کاغذ کی صداقت ہوں گو وقف کتابت ہوں
صفحوں سے عبارت ہوں کھلنا ہے محال اپنا
آئینہ ہے ذات اپنی معمور ہوں جلووں سے
مستور ہے نظروں سے ہر چند جمال اپنا
خوش ہے کہ جو ٹوٹی ہے آخر کوئی شے ہوگی
خود میں نظر آتا ہے شیشے کو جو بال اپنا
پردے نے کہا مجھ کو پردے نے سنا مجھ کو
نغمہ ہوں سمجھتا ہوں اتنا ہی کمال اپنا
غنچے میں رہا ہوں میں تنکے میں ڈھلا ہوں میں
کرنوں کی دعا ہوں میں شعلہ ہے مآل اپنا
اے ہم نظرو ٹھہرو کیا ہو جو بر آمد ہو
ہر گوشۂ خلوت سے اک نقش خیال اپنا
تہہ سطح تک آ پہنچی اک موج نہ ہاتھ آئی
کب تک یہ مہم آخر اب کھینچ لوں جال اپنا
خوشبو سے محبؔ کھیلو کیا عود کو روتے ہو
اس عہد کی نظروں سے مخفی ہے ملال اپنا

غزل
اندر تو خیالوں کے ہو آئے خیال اپنا
محب عارفی