اندر کا سکوت کہہ رہا ہے
مٹی کا مکان بہہ رہا ہے
شبنم کے عمل سے گل تھا لرزاں
سورج کا عتاب سہہ رہا ہے
بستر میں کھلا کہ تھا اکہرا
وہ جسم جو تہہ بہ تہہ رہا ہے
پتھر کو نچوڑنے سے حاصل
ہر چند ندی میں رہ رہا ہے
آئینہ پگھل چکا ہے شاہدؔ
ساکت ہوں میں عکس بہہ رہا ہے
غزل
اندر کا سکوت کہہ رہا ہے
شاہد کبیر