EN हिंदी
اندر کا سکوت کہہ رہا ہے | شیح شیری
andar ka sukut kah raha hai

غزل

اندر کا سکوت کہہ رہا ہے

شاہد کبیر

;

اندر کا سکوت کہہ رہا ہے
مٹی کا مکان بہہ رہا ہے

شبنم کے عمل سے گل تھا لرزاں
سورج کا عتاب سہہ رہا ہے

بستر میں کھلا کہ تھا اکہرا
وہ جسم جو تہہ بہ تہہ رہا ہے

پتھر کو نچوڑنے سے حاصل
ہر چند ندی میں رہ رہا ہے

آئینہ پگھل چکا ہے شاہدؔ
ساکت ہوں میں عکس بہہ رہا ہے