عندلیبوں سے کبھی گل سے کبھی لیتا ہوں
عزم برداشت دم تشنہ لبی لیتا ہوں
طنز کی سرد ہوائیں جو ستاتی ہیں مجھے
شدت گرمیٔ احساس کو پی لیتا ہوں
زندگی باقی بھی اپنوں میں گزر جائے گی
اس لیے تلخئ حالات کو پی لیتا ہوں
مجھ پہ سب لوگ گنہ ڈال دیا کرتے ہیں
کس لیے کس کے لیے دریا دلی لیتا ہوں
انکساری نے مجھے اتنی بلندی دی ہے
بھول کر بھی نہ کبھی راہ خودی لیتا ہوں

غزل
عندلیبوں سے کبھی گل سے کبھی لیتا ہوں
افتخار حسین رضوی سعید