انداز سخن مصلحت آمیز بہت ہے
پھر بھی یہ ادا تیری دل آویز بہت ہے
آشفتہ مزاجی پہ مری طنز نہ کیجے
انداز جہاں بھی تو جنوں خیز بہت ہے
ہم سے وہ ملا ہے تو کھلے دل سے ملا ہے
دنیا کو شکایت ہے کم آمیز بہت ہے
ہم اس سے جدا ہو کے بھی یوں جھوم رہے ہیں
جیسے کہ یہ لمحہ بھی طرب خیز بہت ہے
اک بار بھی تھرائی نہ لو شمع وفا کی
سنتے تھے زمانے کی ہوا تیز بہت ہے
تم ابر کرم بن کے ذرا آ کے تو دیکھو
خاک دل برباد بھی زرخیز بہت ہے
کچھ اور شکایت تو نہیں تیری نظر سے
یہ بات الگ ہے کہ ذرا تیز بہت ہے
اب دیکھیے کس رنگ میں یہ شام ڈھلے گی
کچھ گردش حالات کی لے تیز بہت ہے
غزل
انداز سخن مصلحت آمیز بہت ہے
مغیث الدین فریدی