انداز فکر اہل جہاں کا جدا رہا
وہ مجھ سے خوش رہے تو زمانہ خفا رہا
عالم حیات کا نہ کبھی ایک سا رہا
دنیا میں زندگی کا تماشا بنا رہا
تھا ہر قدم پہ اپنے عزائم کا امتحاں
ہر گام حادثات کا محشر بپا رہا
پھولوں کی عہد گل میں تجارت تو خوب کی
پوچھے کوئی کہ دامن گلچیں میں کیا رہا
بار گراں تھا میرے لئے عرصۂ حیات
جینے کا تیرے غم سے بہت حوصلہ رہا
ہر فکر ہر عمل کا ہے نیت پہ انحصار
شیخ حرم بھی بندۂ حرص و ہوا رہا
دنیا عمل کی راہ میں آگے نکل گئی
زاہد تو خانقاہ میں محو دعا رہا
ہم لاکھ مسکرائے تبسم کی اوٹ سے
سوز غم حیات مگر جھانکتا رہا
اعجازؔ اہل جور سے نفرت رہی انہیں
ہر ظلم ان کی بزم میں لیکن روا رہا
غزل
انداز فکر اہل جہاں کا جدا رہا
غنی اعجاز