EN हिंदी
انا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں | شیح شیری
ana ko bandhta rahta hun apne sheron mein

غزل

انا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں

آفتاب حسین

;

انا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں
بلا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں

گھٹن کے دن ہوں کہ جھگڑے سے چلتے رہتے ہوں
ہوا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں

مہکتی رہتی ہے لفظوں میں کوئی خوشبو سی
صبا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں

وہ حال ہے کہ خموشی کلام کرتی ہے
صدا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں

وہ ہاتھ جیسے کہیں اب بھی دل پہ رکھا ہو
حنا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں

گرفت میں ہوں کسی بت کی آفتاب حسینؔ
خدا کو باندھتا رہتا ہوں اپنے شعروں میں