ان گنت شاداب جسموں کی جوانی پی گیا
وہ سمندر کتنے دریاؤں کا پانی پی گیا
نرم صبحیں پی گیا شامیں سہانی پی گیا
ہجر کا موسم دلوں کی شادمانی پی گیا
میرے ارمانوں کی فصلیں اس لیے پیاسی رہیں
ایک ظالم تھا جو کل بستی کا پانی پی گیا
لے گئے تم چھین کر الفاظ کا امرت کلس
میں وہ شوشنکر تھا جو زہر معانی پی گیا
اک توجہ کی نظر شکوے گلے سب کھا گئی
اک تبسم عمر بھر کی بد گمانی پی گیا
اگلے وقتوں کی مروت رہ گئی بن کر سراب
وقت کا صحرا سبھی قدریں پرانی پی گیا
زہر ڈالا تھا کہ امرت تو نے میرے جام میں
کچھ بھی ہو میں نے تری تلقین معنی پی گیا
جا کے وہ برسا نہ جانے کس سمندر پر شبابؔ
آہ جو بادل مری جھیلوں کا پانی پی گیا
غزل
ان گنت شاداب جسموں کی جوانی پی گیا
شباب للت