ان گنت عذاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
درد بے حساب ہیں رتجگوں کے درمیاں
بن چکا ہے دل سوال اب کسی کے ہجر میں
اس پہ لا جواب ہیں رتجگوں کے درمیاں
اشک روک روک اب شل ہوئے ہیں حوصلے
ہر سمے عتاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
کاش وہ ملے کہیں تو بتاؤں میں اسے
کس قدر سراب ہیں رتجگوں کے درمیاں
سو چراغ جل بجھے تیرگی نہ کم ہوئی
مستقل حجاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
کیا بتاؤں حال میں اس کو اپنے درد کا
وحشتوں کے باب ہیں رتجگوں کے درمیاں
وہ جنہیں خبر نہیں قلب ناصبور کی
چار سو جناب ہیں رتجگوں کے درمیاں
ایک غم چلا گیا دوسرے نے آ لیا
سلسلے شتاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
رکھ رکھاؤ میں سدا رہ کے آج تک یہاں
حالتیں خراب ہیں رتجگوں کے درمیاں
زندگی کی دوڑ میں پچھلی رت کے خواب سب
اب بھی ہم رکاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
آج یہ کھلا صفیؔ جاں کے اور غم کئی
شامل نصاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
غزل
ان گنت عذاب ہیں رتجگوں کے درمیاں
عتیق الرحمٰن صفی