امن و صلح و آشتی ہو جیسے بیماری کا نام
ہے سیاست عہد نو میں ایک عیاری کا نام
ان کا ظاہر اور باطن دیکھ کر ایسا لگا
پارسائی جیسے ہو شاید ریاکاری کا نام
جو زمانہ ساز ہیں، ہیں سب کے منظور نظر
ہے تغزل میں ترنم آج فن کاری کا نام
گردش حالات سے ہے بند جن کا ناطقہ
وہ زبان حال سے لیتے ہیں بیکاری کا نام
ہے گرانی کا وہ عالم الامان و الحفیظ
ڈرتے ہیں لیتے ہوئے اب سب خریداری کا نام
شوخئ گفتار میں کہہ جاتے ہیں وہ کچھ سے کچھ
دوستی ان کی نظر میں ہے دل آزاری کا نام
پر مسرت زندگی ہے آج کل خواب و خیال
ہے زباں پر ان دنوں سب کی عزا داری کا نام
کیا کشود کار کی برقیؔ کوئی صورت نہیں
سب کے ہے ورد زباں اب صرف دشواری کا نام
غزل
امن و صلح و آشتی ہو جیسے بیماری کا نام
احمد علی برقی اعظمی