امیر شہر کی چوکھٹ پہ جا کے لوٹ آیا
غریب وقت انگوٹھا دکھا کے لوٹ آیا
لگا رہا تھا میں بڑھ چڑھ کے بولیاں لیکن
خریدا کچھ نہیں قیمت بڑھا کے لوٹ آیا
کسر رہی سہی کر دیں گی آندھیاں پوری
میں اس درخت کو جڑ سے ہلا کے لوٹ آیا
میں چاند چھونے کی خواہش میں گھر سے نکلا تھا
اور اپنی پلکوں پہ تارے سجا کے لوٹ آیا
بجھا دیا تھا جسے سرپھری ہواؤں نے
میں اس چراغ کو پھر سے جلا کے لوٹ آیا
وہ ابتدائے سفر میں ہی کھل گیا مجھ پر
میں اس کے ساتھ ذرا دور جا کے لوٹ آیا
کمالؔ اس نے مرے دل کا حال پوچھا تھا
میں اس کو میرؔ کی غزلیں سنا کے لوٹ آیا
غزل
امیر شہر کی چوکھٹ پہ جا کے لوٹ آیا
احمد کمال حشمی