امیر شہر کے آنگن میں جب اجالے ہوئے
نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ کالے ہوئے
اسی زمیں کے خدا قبر گاہ میں اپنی
ہیں اپنی جسم کی مٹی پہ خاک ڈالے ہوئے
تمہاری فکر کی کوتاہ قد حویلی میں
بجھے چراغ تو پھر مکڑیوں کے جالے ہوئے
مخالفین کا اب شغل ہو گیا ہے یہی
اچھالتے ہیں یہ جملے مرے اچھالے ہوئے
عجیب بات ہے خود میری آستین کے سانپ
مجھی کو گھورتے رہتے ہیں سر نکالے ہوئے
ہمارے شہر میں لفظوں کی کھیتیاں ہیں بہت
قدیم لوگ ہیں سارے لغت کھنگالے ہوئے
یہ اہل فن میں بھی کیڑے نکال دیتے ہیں
حسد کا طوق جو ہیں گردنوں میں ڈالے ہوئے
غزل
امیر شہر کے آنگن میں جب اجالے ہوئے
سنجے مصرا شوق