امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت
کہ شہر بھر میں سگ درد چیختا ہے بہت
ہر ایک زخم سے زخموں کی کونپلیں پھوٹیں
جو باغ تم نے لگایا تھا اب ہرا ہے بہت
ذرا سی نرم روی سے پہنچ گئے دل تک
تناؤ تھا تو سمجھتے تھے فاصلہ ہے بہت
جو دم گھٹے تو شکایت نہ کیجیئے صاحب
کہ سانس لینے کو زہروں بھری ہوا ہے بہت
چراغ لاکھوں ہوں روشن نظر نہیں آتے
یہاں تو چہرہ پرستوں کو اک دیا ہے بہت
یہ طے ہے مجھ سے کبھی ترک حق نہیں ہوگا
کہ میری خاک میں یہ کیمیا ملا ہے بہت
مماثلت کے حوالوں میں مت تلاش کرو
عمومیت سے ہماری غزل جدا ہے بہت
غزل
امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت
ظفر صہبائی