EN हिंदी
امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت | شیح شیری
amir-e-shahr is ek baat se KHafa hai bahut

غزل

امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت

ظفر صہبائی

;

امیر شہر اس اک بات سے خفا ہے بہت
کہ شہر بھر میں سگ‌ درد چیختا ہے بہت

ہر ایک زخم سے زخموں کی کونپلیں پھوٹیں
جو باغ تم نے لگایا تھا اب ہرا ہے بہت

ذرا سی نرم روی سے پہنچ گئے دل تک
تناؤ تھا تو سمجھتے تھے فاصلہ ہے بہت

جو دم گھٹے تو شکایت نہ کیجیئے صاحب
کہ سانس لینے کو زہروں بھری ہوا ہے بہت

چراغ لاکھوں ہوں روشن نظر نہیں آتے
یہاں تو چہرہ پرستوں کو اک دیا ہے بہت

یہ طے ہے مجھ سے کبھی ترک حق نہیں ہوگا
کہ میری خاک میں یہ کیمیا ملا ہے بہت

مماثلت کے حوالوں میں مت تلاش کرو
عمومیت سے ہماری غزل جدا ہے بہت