اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
ہر مست میرے پیر مغاں کا مرید ہے
واعظ عبث یہ ذکر عذاب شدید ہے
اک توبہ قفل رحمت حق کی کلید ہے
وحشت نے ہم کو جامۂ خاکی پہنا دیا
اے عقل اب یہ کاہے کی قطع و برید ہے
اے رہروان جادۂ الفت بڑھے چلو
یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ منزل بعید ہے
کیونکر نہ قرب حق کی طرف دل مرا کیجیے
گردن اسیر حلقۂ حبل الورید ہے
اب جام جم کی مجھ کو ضرورت نہیں رہی
وہ دل ملا ہے جس میں دو عالم کی دید ہے
واللیل ہے کہ زلف معنبر حضور کی
یہ روئے پاک ہے کہ کلام مجید ہے
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے
خنجر بکف وہ کہتے ہیں اب آئے سامنے
کس کو خیال وصل ہے ارمان دید ہے
مجھ خستہ دل کی عید کا کیا پوچھنا حضور
جن کے گلے سے آپ ملے ان کی عید ہے
تو دیکھے اور بندے پہ تیرے عذاب ہو
یارب یہ تیری شان کرم سے بعید ہے
شیشے کا معتقد ہے ارادت ہے جام سے
کس پیر مے فروش کا بیدمؔ مرید ہے
غزل
اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
بیدم شاہ وارثی