اللہ دے سکے تو دے ایسی زباں مجھے
اپنا سمجھ کے دل سے لگا لے جہاں مجھے
صحن چمن سے جب بھی اٹھا ہے دھواں کبھی
یاد آ کے رہ گیا ہے مرا آشیاں مجھے
خار نفس نے مجھ کو نہ سونے دیا کبھی
اک عمر موت دیتی رہی لوریاں مجھے
میں اک چراغ لاکھ چراغوں میں بٹ گیا
رکھا جو آئنوں نے کبھی درمیاں مجھے
میں آنے والے قافلے کا میر بن گیا
چھوڑا تھا ساتھیوں نے پس کارواں مجھے
ہر موج سے الجھتی ہوئی کھیلتی ہوئی
ساحل پہ لائی کشتئ عمر رواں مجھے
سیمابؔ دشت زیست سے میں کیا کروں گلہ
بخشی ہیں بستیوں نے بھی ویرانیاں مجھے
غزل
اللہ دے سکے تو دے ایسی زباں مجھے
سیماب سلطانپوری