اللہ اے بتو ہمیں دکھلائے لکھنؤ
سوتے میں بھی یہ کہتے ہیں ہم ہائے لکھنؤ
ایسا ہوا ہوں ہجر میں اس کے نحیف و زار
دیکھے اگر مجھے وہیں شرمائے لکھنؤ
آئے نہ میرے پاس تو میں آپ ہی چلوں
مجھ کو خدا کرے کہیں بلوائے لکھنؤ
کلکتہ کے حسینوں کو جب دیکھ لیتا ہوں
اس وقت دل میں ہوتا ہے سودائے لکھنؤ
اب لٹ گیا ہے کیا رہا دوزخ سے بڑھ کے ہے
رشک بہشت کہتے تھے سب جائے لکھنؤ
خوش چشمی آہوؤں کی وہ بھولے جہان میں
دیکھے جو آنکھ نرگس شہلائے لکھنؤ
گلشن عجب بہار کے ہر قصر رشک خلد
اور گومتی غضب کی ہے دریائے لکھنؤ
حور و پری کو رشک تھا اک ایک شخص پر
بے مثل تھے سبھی مہ سیمائے لکھنؤ
مرنے کے بعد بھی نہ مٹے گا جگر سے داغ
جنت میں ہم کو ہوئے گی پروائے لکھنؤ
جب سے ہٹا ہے وہ تہہ و بالا یہ ہو گیا
جنت کوئی ضرور تھا بالائے لکھنؤ
میں کیا کہوں فقیروں کو جو کچھ غرور تھا
اک اک گدائے شہر تھا دارائے لکھنؤ
ہٹتا نہیں تصور اسباب و ملک و مال
کانوں میں بج رہی ہے وہ شہنائے لکھنؤ
کیا کیا حسیں تھے جمع پرستاں کا تختہ تھا
نظروں میں پھرتے ہیں رخ زیبائے لکھنؤ
شاہوں پہ فخر کرتے تھے اس ملک کے گدا
تھا مثل جام جم مے و مینائے لکھنؤ
ہر چند لاکھ طرح بھلاتا ہوں یاد کو
اخترؔ پکار اٹھتا ہے دل ہائے لکھنؤ
غزل
اللہ اے بتو ہمیں دکھلائے لکھنؤ
واجد علی شاہ اختر