الفاظ نہ دے پائیں اگر ساتھ بیاں کا
آنکھوں سے بھی لے لیتے ہیں وہ کام زباں کا
قاتل کی جبیں پر ہیں پسینے کی لکیریں
شاید کہ اثر ہے یہ مری آہ و فغاں کا
آنگن ہے نہ ڈیوڑھی نہ چنبیلی کا وہ منڈوا
شہروں نے بدل ڈالا ہے مفہوم مکاں کا
آئے ہو تو کچھ دیر ٹھہر جاؤ یہاں بھی
ہم بھی تو مزہ لیں ذرا رنگین سماں کا
یہ سوچ کے وعدے پہ یقیں ہم نے کیا ہے
کچھ پاس تو رکھوگے مری جان زباں کا
اس طرز تخاطب سے عتیقؔ ان کو لگا ہے
جیسے کہ کبھی تھا ہی نہیں میں تو یہاں کا
غزل
الفاظ نہ دے پائیں اگر ساتھ بیاں کا
عتیق مظفر پوری