الفاظ کے پتھر کیا پھینکے گئے پانی میں
طوفان سا برپا ہے دریائے معانی میں
خوشیوں کے فسانے ہی دہرائے نہیں جاتے
ہیں رنج کے چھینٹے بھی گھر گھر کی کہانی میں
جادو ہی غضب کا تھا عکس رخ زیبا کا
کیوں آگ نہ لگ جاتی بہتے ہوئے پانی میں
دونوں ہی قبیلوں نے پیمان وفا باندھے
لوٹ آئی وفا پھر سے ہر دشمن جانی میں
ترسیل تمدن کی ہوتی بھی تو پھر کیسے
اخلاق نہ ہوتا گر تہذیب کے بانی میں
مصرعے پہ ترے عارفؔ مصرع جو ہوا چسپاں
خوشبو سی اتر آئی ہر اولیٰ و ثانی میں
غزل
الفاظ کے پتھر کیا پھینکے گئے پانی میں
عارف انصاری