الفاظ بک رہے تھے خریدے نہیں گئے
اسکول ہم غریبوں کے بچے نہیں گئے
تو خود ضرورتوں کے اندھیرے میں کھو گیا
تجھ کو تلاش کرنے اندھیرے نہیں گئے
صیاد کے قفس میں انہیں بھوک لے گئی
پنچھی خوشی سے جال میں پھنسنے نہیں گئے
جگنو ہیں تیرگی میں چمکتے رہے ہیں ہم
سورج کی روشنی میں چمکنے نہیں گئے
ہم کو سمندروں کا نگہباں بنا دیا
ہونٹوں سے تھے جو پیاس کے رشتے نہیں گئے
غزل
الفاظ بک رہے تھے خریدے نہیں گئے
ندیم فرخ