عکس ٹوٹا ہے بارہا میرا
سنگ خارا ہے آئنہ میرا
ساری دنیا مری مخالف ہے
ایک بچہ ہے ہم نوا میرا
تیز بارش کا میں پرندہ ہوں
بادلوں میں ہے گھونسلہ میرا
گھر میں مہماں ہوئی ہے تنہائی
بھر گیا ہے برآمدہ میرا
دو چراغوں سے رات روشن ہے
ایک تیرا ہے دوسرا میرا
اوپر اوپر سے ٹھیک لگتا ہے
زخم اندر سے ہے ہرا میرا
پوچھ لینا کسی پرندے سے
سب کو معلوم ہے پتا میرا
میری ترکیب میں ہے سچائی
کون چکھے گا ذائقہ میرا
کونے کھدرے بھی خوب روشن ہیں
حجرۂ ذات ہے کھلا میرا
ہونے لگتی ہے بات جب خود سے
ٹوٹ جاتا ہے رابطہ میرا
کسی منزل کی یاد آتے ہی
چلنے لگتا ہے نقش پا میرا
ایک پرکار کے سمٹتے ہی
پھیل جاتا ہے دائرہ میرا
ایک ٹھوکر سے ٹوٹ جائے گا
جسم فانی ہے بھربھرا میرا
تم زمینوں کو ناپتے رہنا
کائناتی ہے فاصلہ میرا
تھک کے واپس چلا گیا ناصرؔ
عین منزل سے راستہ میرا
غزل
عکس ٹوٹا ہے بارہا میرا
نصیر احمد ناصر