عکس منظر میں پلٹنے کے لیے ہوتا ہے
آئینہ گرد سے اٹنے کے لیے ہوتا ہے
شام ہوتی ہے تو ہوتا ہے مرا دل بیتاب
اور یہ تجھ سے لپٹنے کے لیے ہوتا ہے
یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کئی دنیاؤں کو
ایسا پھیلاؤ سمٹنے کے لیے ہوتا ہے
علم جتنا بھی ہو کم پڑتا ہے انسانوں کو
رزق جتنا بھی ہو بٹنے کے لیے ہوتا ہے
سائے کو شامل قامت نہ کرو آخر کار
بڑھ بھی جائے تو یہ گھٹنے کے لیے ہوتا ہے
گویا دنیا کی ضرورت نہیں درویشوں کو
یعنی کشکول الٹنے کے لیے ہوتا ہے
مطلع صبح نمو صاف تو ہوگا آزرؔ
ابر چھایا ہوا چھٹنے کے لیے ہوتا ہے
غزل
عکس منظر میں پلٹنے کے لیے ہوتا ہے
دلاور علی آزر