EN हिंदी
عکس ہے بے تابیوں کا دل کی ارمانوں میں کیوں | شیح شیری
aks hai be-tabiyon ka dil ki armanon mein kyun

غزل

عکس ہے بے تابیوں کا دل کی ارمانوں میں کیوں

حامد اللہ افسر

;

عکس ہے بے تابیوں کا دل کی ارمانوں میں کیوں
بے زباں شامل ہوئے جاتے ہیں مہمانوں میں کیوں

ہو گئے دیوانے رخصت بستیوں کی سمت کیا
چھا گئیں ویرانیاں سی پھر بیابانوں میں کیوں

دل کی اس بے رونقی کا ذکر جانے دیجئے
ہو رہی ہیں بستیاں تبدیل ویرانوں میں کیوں

ہے رقابت جزو لازم مہر و الفت کا اگر
اجتماعی عشق پھر ہوتا ہے پروانوں میں کیوں

کیا کسی کٹیا کے اندر جاگ اٹھی ہے زندگی
کھلبلی سی پڑ گئی محلوں میں ایوانوں میں کیوں

بیخ کن تھے جو ستم رانوں کے کل تک اے ندیم
ہو رہا ہے اب شمار ان کا ستم رانوں میں کیوں

امن کے خواہاں ہیں جب افسرؔ جہاں والے تمام
کشمکش رہتی ہے پھر اتنی جہاں بانوں میں کیوں