عکس خیال یار سنوارا کریں گے ہم
شیشے میں آئنے کو اتارا کریں گے ہم
صحرا میں اعتماد کے گم سم سماعتیں
کچھ لوگ کہہ رہے تھے پکارا کریں گے ہم
گردن کٹی ہے ہاتھ بھی شانوں سے کٹ گئے
قاتل کی سمت کیسے اشارہ کریں گے ہم
میرے خلاف وہ بھی سمندر سے مل گئے
دریا تو کہہ رہے تھے کنارا کریں گے ہم
چادر سے جب نہ چھپ سکا سکڑا ہوا بدن
کھل کر اب اپنے پاؤں پسارا کریں گے ہم
سانسوں کی طرح یہ بھی ہیں جینے کو لازمی
چوٹیں جو دب چکی ہیں ابھارا کریں گے ہم
اخترؔ ہوں جب ستارے سبھی آسمان پر
پھر کیوں کسی زمیں پہ گزارا کریں گے ہم
غزل
عکس خیال یار سنوارا کریں گے ہم
جنید اختر