عکس آنکھوں میں بے دھیانی کا تھا
یا سبب دل کی بد گمانی کا تھا
بجھتا بجھتا حباب پانی کا تھا
لمحہ لمحہ میں زندگانی کا تھا
کچھ طبیعت بھی زور پر تھی مری
کچھ تقاضا بھی نوجوانی کا تھا
میں تھا کامل نظر شناسی میں
زعم اس کو مزاج دانی کا تھا
تھا جو کھٹکا سا ہر گھڑی دل میں
عذر بس اس کی پاسبانی کا تھا
اک نئی طرح بے نیازی کی تھی
اک نیا طور مہربانی کا تھا
ایک رستہ ہر ایک بستی کا تھا
ایک عنوان ہر کہانی کا تھا
ڈوبتی اک صدا سی لہر میں تھی
جاگتا شور سا روانی کا تھا
زد پہ آتے ہی کھل گیا ہے امامؔ
جو بھرم اس کی بادبانی کا تھا

غزل
عکس آنکھوں میں بے دھیانی کا تھا
نعمان امام